اقوام متحدہ (نمائندہ خصوصی) چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں اقوام متحدہ کی اناسیویں جنرل اسمبلی کے عام مباحثے میں شرکت کی اور “ماضی سے سیکھ کر آگے بڑھنا، بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنا ” کے موضوع پر خطاب کیا۔اتوار کے روز وانگ ای نے کہا کہ چینی صدر شی جن پھنگ نے کئی بار اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کردار کو صرف مضبوط کیا جا سکتا ہے، کمزور نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صدی میں نظر نہ آنے والی بڑی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، چین کا مطالبہ ہے کہ زمانے کے ترقی کے رجحان کی پیروی کی جائے ، انسانی ترقی کی سمت کی جانب بڑھا جائے اور درست تاریخی انتخاب کیا جائے ۔وانگ ای کا کہنا تھا کہ چین کی تجویز ایک پائیدار اور مستحکم سیکورٹی پیٹرن، مشترکہ خوشحالی کا ایک ترقیاتی نمونہ، تبادلے اور باہمی سیکھ کا تہذیبی نمونہ اور مشترکہ شراکت اور اشتراک کا طرز حکمرانی قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف تہذیبوں کی اپنی خوبیاں اور کمزوریاں ہیں اور تمام ممالک کی خودمختاری یکساں ہے۔ ہمیں مساوی اور منظم کثیر قطبیت کی وکالت کرنی چاہیے، حقیقی کثیرالجہتی پر عمل کرنا چاہیے، تسلط پسندی اور طاقت کی سیاست کی مخالفت کرنی چاہیے، اور عالمی حکمرانی کو زیادہ منصفانہ اور معقول سمت میں فروغ دینا چاہیے۔
وانگ ای نے یوکرین کے بحران، فلسطین، افغانستان اور جزیرہ نما کوریا جیسے ” ہاٹ اشوز ” پر چین کے موقف کو واضح کیا اور عالمی نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے چینی تجاویز کی وضاحت کی ۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ترقی میں عدم توازن اور تاخیر کو دیکھتے ہوئے چین ترقیاتی امور کو بین الاقوامی ایجنڈے کے مرکز میں رکھنے کی وکالت کرتا ہے، اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے نفاذ پر توجہ مرکوز کرتا ہے، ترقیاتی وسائل میں سرمایہ کاری میں اضافہ اور ترقی پذیر ممالک کو مختلف مسائل سے بہتر طور پر نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔
چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ پابندیوں اور ناکہ بندیوں کے ذریعے یکطرفہ پسندی کا سامنا کرتے ہوئے، چین ایک منصفانہ اور کھلے بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنے، عالمی ترقی کی جامع ہم آہنگی کو فروغ دینے کی حمایت کرتا ہے، اور مشترکہ طور پر تکنیکی ناکہ بندیوں کی مخالفت کرتا ہے اور مشترکہ طورپر ڈی کپلنگ کی مزاحمت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی چیلنجوں کی شدت کے پیش نظر چین غیر متزلزل طور پر سبز، کم کاربن اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو چاہئے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو ردعمل کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد کریں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے دعووں کے ساتھ دوسرے ممالک کی سبز صنعتوں کو دبا ؤ میں لانے کی کوششیں نہیں ہونی چاہئیں ۔
وانگ ای نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے عروج کا سامنا کرتے ہوئے، چین لوگوں کو اولیت دینے پر اصرار کرتا ہے، ذہانت کو بھلائی کے لیے استعمال کرتا ہے، اور ترقی اور سلامتی کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔چین عالمی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین اور معیارات کے قیام کی کوششیں کرتا ہے، اقوام متحدہ کو بطور ادارہ اپنا کردار ادا کرنے میں مدد دیتا ہے اور مصنوعی ذہانت کی عالمی گورننس کے لیے اہم چینل اور مصنوعی ذہانت کی صلاحیت کی تعمیر میں بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرتا ہے۔
چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے دور حاضر کے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے، چین انسانی حقوق کی ترقی کے راستوں کی تشکیل کے لیے تمام ممالک کے آزادانہ انتخاب کا احترام کرنے کی وکالت کرتا ہے اور اس سمجھتا ہے کہ کوئی بھی ملک انسانی حقوق کی آڑ میں دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا۔ .
وانگ ای نے اس بات پر زور دیا کہ تائیوان چین کی سرزمین کا ایک ناقابل تقسیم حصہ ہے یہ تاریخ بھی ہے اور حقیقت بھی ۔ چین یقینی طور پر قومی وحدت حاصل کرے گا اور تائیوان مادر وطن کی آغوش میں واپس آئے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی رجحان ہے جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
وانگ ای نے سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کی بیسویں کانگریس کے تیسرے کل رکنی اجلاس کی روح کو بھی متعارف کرو ایا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ چینی طرز کی جدید کاری مؤثر طریقے سے عالمی امن اور استحکام کو فروغ دے گی ، عالمی نظم و نسق کو بہتر بنائے گی اور انسانی تہذیب کی ترقی کو فروغ دے گی۔انہوں نے کہا کہ چین دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کے اصل مشن کا جائزہ لینے، اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ اپنے پختہ عزم کا اعادہ کرنے، حقیقی کثیرالجہتی کی وکالت اور عمل کرنے، بنی نوع انسان کے نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے اور ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے تیار ہے۔