بیجنگ (ویب ڈیسک) ایسٹ تیمور جنوب مشرقی ایشیا میں نوسا ٹینگارا جزائر کے مشرقی حصے میں واقع ہے ، جس میں پہاڑی علاقے ،ساحلی میدان اور وادیاں ہیں جو تیل اور گیس کے وسائل سے مالا مال ہیں۔ زراعت ایسٹ تیمور کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے، ملک میں 66 فیصد گھرانے زراعت سے وابستہ ہیں۔ایسٹ تیمور کے صدر ہورٹا نے چین کا دورہ کیا جو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد ایسٹ تیمور کے صدر کا چین کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔مئی 2002 میں چین ایسٹ تیمور کی آزادی کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بنا اور ہورٹا نے ایسٹ تیمور کے اس وقت کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے۔ 2023 میں چین اور ایسٹ تیمور نے اپنے دوطرفہ تعلقات کو جامع اسٹریٹجک شراکت داری میں اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔
چین کے اس دورے کے دوران صدر ہورٹا نے چائنا میڈیا گروپ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں چین واحد ملک ہے جو بین الاقوامی تنازعات میں ملوث نہیں رہا، چاہے وہ افغانستان، یمن، عراق اور لیبیا کی جنگ ہو یا اس وقت جاری یوکرین بحران ہو۔ جس چیز نے انہیں چین کے بارے میں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ چین نے انتہائی غربت کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے اور ایک غریب زرعی معیشت سے ایک بڑے ملک میں تبدیل ہو گیا ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی اور طبی دیکھ بھال سمیت دیگر بہت سے شعبوں میں ترقی یافتہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین سستے سامان کے ساتھ ساتھ ہائی ٹیک مصنوعات بھی تیار کرتا ہے. صرف چینی ہی دنیا کے غریبوں کو وہ سامان فراہم کر سکتے ہیں جو وہ خرید سکیں، اور یہ چین کی دانشمندی ہے۔
صدر ہورٹا نےایسٹ تیمور اور چین کے درمیان تعلقات کو بیان کرنے کے لئے "مثالی” یا "غیر معمولی” کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین ایسٹ تیمور کو زرعی امداد فراہم کر رہا ہے۔ خوراک کی خود کفالت اور لوگوں کے ذریعہ معاش میں بہتری ہماری اولین ترجیح ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ "چینی معجزہ” ایسٹ تیمور میں بھی نمودار ہوگا۔صدر ہورٹا کا ماننا ہے کہ چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کو فروغ دیا ہے۔ پیرس میں اقوام متحدہ کی موسمی تبدیلیوں کی 21 ویں کانفرنس میں پیرس معاہدے پر دستخط کیے گئے تب چین واحد بڑا ملک تھا جس نے اس حوالے سے مستحکم انداز میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ایسٹ تیمور کا ماننا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) عالمی اقتصادی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے، جس سے ایشیا اور یورپ بہتر اور تیز تر رابطے حاصل کریں گے اور ایشیا اور یورپ کو زیادہ خوشحال بنانے میں مدد ملے گی۔