اقوام متحدہ (نمائندہ خصوصی) اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کے لیے ‘چار ضروری’ اقدامات پر مبنی تجویز پیش کی جس سے بین الاقوامی تنازعات کے حل کے حوالے سے چین کے مستقل موقف کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔امن مذاکرات کو فروغ دینا اور بحرانوں کے سیاسی تصفیے کو فروغ دینا۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے گزشتہ75 سالوں سے چین ہمیشہ عالمی امن کا معمار، عالمی ترقی میں حصہ دار اور بین الاقوامی نظم و نسق کا محافظ رہا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے لے کر اب تک کے 75 سالوں میں چین نے کسی جنگ یا تنازعہ کو بھڑکانے کی پہل نہیں کی اور نہ ہی اس نے دوسرے ممالک میں ایک انچ زمین پر جارحیت کی ہے۔ گزشتہ صدی کی پچاس کی دہائی میں پیش کیے گئے پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصول بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصول بن گئے ہیں۔ چین اہم بین الاقوامی ہاٹ اسپاٹ ایشوز کے حل میں فعال طور پر حصہ لیتا رہا ہے.
سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے لے کر فلسطین کے اندر تاریخی مصالحت کے حصول تک، یوکرین بحران کے سیاسی حل کو فعال طور پر فروغ دینے سے لے کر میانمار میں تنازعہ میں شامل فریقین کے مابین امن مذاکرات میں ثالثی تک، چین ہمیشہ عالمی امن کے لئے مصروف عمل رہا ہے اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں امن فوج کا سب سے بڑا حصہ دار رہا ہے۔
2022 میں چینی صدر شی جن پھنگ نے گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو پیش کیا جو پائیدار امن کے حصول کے لیےرہنمائی فراہم کرتا ہے۔ حقائق نے ثابت کیا ہے کہ چین کی ترقی کے ہر قدم کے ساتھ امن کی طاقت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ چین کی پرامن ترقی انسانی تاریخ میں عظیم نصب العین ہے اور یہ تمام انسانیت کے امن و ترقی کے لئے سازگار ہے۔
چین اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی نظام ہے اور وہ اقوم متحدہ کی مرکزیت پر مبنی بین الاقوامی نظام ہے۔ صرف ایک ہی نظم و نسق ہے، اور وہ بین الاقوامی قانون پر مبنی بین الاقوامی نظم و نسق ہے۔ اصولوں کا صرف ایک مجموعہ ہے اور وہ اقوام متحدہ کے منشور کے مقاصد اور اصولوں کی بنیاد پر بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصول ہیں