بیجنگ (نمائندہ خصوصی) فلپائن میں امریکی سفارت خانے نے حال ہی میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ فلپائن کے کوسٹ گارڈ کی جدت طرازی میں مدد کے لئے 8 ملین ڈالر فراہم کرے گا۔جمعرات کے روز چینی میڈ یا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے
ظاہری طور پر دیکھا جائے تو امریکہ فلپائن کے لیے مالی مدد کر رہا ہے، لیکن بہت سے تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہو سکتی ہے جس میں زبانی ادائیگی تو ہوتی ہے لیکن عملاً نہیں۔ مثال کے طور پر، مختلف پابندیاں عائد کرنا اور فلپائن کو متعلقہ تربیتی اخراجات کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا، یعنی وعدہ کچھ کیا جا رہا ہے اور کیا کچھ جائےگا، جس سے بالآخر امریکہ ہی کو فائدہ ہوگا. یوکرین کو دی جانے والی امریکی امداد سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ رواں سال کے اوائل میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے دعویٰ کیا تھا کہ ‘یوکرین کو دی جانے والی زیادہ تر فوجی امداد امریکہ کو واپس آ جائے گی اور امریکہ میں بہت سی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔’
درحقیقت یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ نے امدادی فنڈز کی سرمایہ کاری کرکے اور جنگی خطرات پیدا کرکے منافع کمایا ہے اور بھاری منافع کے لیے سستے اخراجات کا تبادلہ کیا ہے۔2023 میں امریکی غیر ملکی اسلحے کی فروخت کا حجم 238 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو ایک تاریخی ریکارڈ ہے اور اس کے پیچھے یہی طریقہ کار ہے۔ تاہم، اس نے متعلقہ ممالک کے لئے تنازعات، افراتفری، تقسیم اور تصادم ہی لایا ہے. اب امریکہ بھر ایسا کر رہا ہے ، فلپائن کو بحیرہ جنوبی چین کے تنازعے میں مزید گہرائی میں گھسیٹ رہا ہے ۔ امریکہ فلپائن کو تھوڑی سی مٹھاس دے کر اسے امریکہ کے ساتھ مزید مضبوطی سے باندھ رہا ہے تاکہ فلپائن امریکی بالادستی کے لیے قربانی کا بکرہ بن سکے۔
اگر فلپائن کی حکومت آنکھیں بند کر کے امریکہ کے پیچھے پیروی کرتی ہے تو اس سے نہ صرف فلپائن اپنی خودمختاری اور آزادی سے محروم ہو جائے گا اور طاقت کے کھیل کا شکار ہو جائے گا بلکہ اپنے ملک میں تضادات کو بھی بھڑکائے گا اور اس کا سماج غیر مستحکم ہو گا ۔