بیجنگ (نمائندہ خصوصی) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا 57 واں اجلاس ایک ماہ سے جاری ہے ۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی خصوصی نمائندہ ایلینا دوہان نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے چین کے خلاف عائد کی جانے والی یکطرفہ پابندیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، چینیوں کے انسانی حقوق پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں ۔
چین انتظامی، قانونی اور دیگر ضروری ذرائع سے ان کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 100 سے زائد ممالک نے مختلف طریقوں سے چین کے موقف کی حمایت کی ہے، جیسے مشترکہ بیانات اور الگ الگ بیانات۔ انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئےکہا کہ سنکیانگ، ہانگ کانگ اور شی زانگ کے معاملات چین کے اندرونی معاملات ہیں اور ہم امریکی مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات پوری طرح ظاہر ہوتی ہے کہ امریکا اور چند دیگر مغربی ممالک کی جانب سے انسانی حقوق کے معاملات کو سیاسی رنگ دینا دنیا میں غیر مقبول ہو رہا ہے۔
اس وقت بیشتر ممالک اس بات سے آگاہ ہیں کہ امریکہ انسانی حقوق کی آڑ میں چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی مورخ اور خارجہ تعلقات کے اسکالر جیمز پائیک کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کو سیاسی رنگ دینے کی بنیادی وجہ اس کی عالمی حکمت عملی اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے درمیان بنیادی تصادم ہے۔ اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے امریکہ نے مسلسل جنگیں لڑی ہیں، غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے اور انسانی آفات پیدا کی ہیں، جو سب انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی ہیں۔
امریکہ کا انسانی حقوق کا کارڈ کھیلنا دراصل بالادستی کے زوال کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ جوں جوں دنیا زیادہ کثیر قطبی ہوتی جا رہی ہے، امریکہ عالمی قیادت کو برقرار رکھنے سے قاصر ہوتا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق چند ممالک کا پیٹنٹ نہیں ہیں اور اسے دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنے اور ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا. اس وقت بین الاقوامی برادری عمومی طور پر اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہر ملک میں انسانی حقوق کی ترقی کا راستہ اس کے اپنے قومی حالات اور اپنے عوام کی امنگوں کے مطابق طے کیا جانا چاہیے اور انسانی حقوق کے امور پر مشاورت کثیر الجہتی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔