بیجنگ (ویب ڈیسک) چین کی 144 گھنٹے کی ویزہ فری ٹرانزٹ پالیسی میں توسیع کے ساتھ بیجنگ کی سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ غیر ملکی چہرے نظر آ رہے ہیں۔ ان غیر ملکی سیاحوں کی سٹی واک میں بیجنگ سنٹرل ایکسس جسے حال ہی میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، ایک "خزانے کا راستہ بن گیا ہے۔
بیجنگ سنٹرل ایکسس بیجنگ کے پرانے شہر کے شمال اور جنوب سے گزرتا ہے۔ اس کی تعمیر 13 ویں صدی میں شروع ہوئی اور16ویں صدی میں اسے مکمل کیا گیا۔ اس کے بعد سے مسلسل ترقی ہوتی رہی اور آج یہ دنیا کا سب سے طویل شہری محور کہلاتا ہے۔ سوال یہی ہے کہ اس 7.8 کلو میٹر طویل محور پر کیا کیا متاثر کن چیزیں موجود ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اس محور پر چینی تعمیراتی فن کے ان گنت شاندار شاہکاروں کو دیکھ سکتے ہیں۔
درحقیقت، "بیجنگ سینٹرل ایکسس” صرف ایک لکیر نہیں ہے، بلکہ ثقافتی ورثے سے مالا مال علاقہ ہے جو قدیم شاہی عمارتوں، شہری انتظامی سہولیات اور تاریخی سڑکوں کے ساتھ ساتھ جدید عوامی عمارتوں اور عوامی مقامات پر مشتمل ہے۔ ثقافتی ایریا 589 ہیکٹر کے رقبے پر محیط ہے اور ملحقہ زون 4,542 ہیکٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں 15 ثقافتی عوامل ہیں، جو ایک منظم اور شاندار شہری تاریخی تعمیرات کا کمپلیکس بناتے ہیں۔
شہری تعمیرات کا روایتی ثقافت اور تصورات سے گہرا تعلق ہے۔ اسی باعث یہ 7.8 کلومیٹر لکیر روایتی چینی ثقافت کو سمجھنے کے لیے ایک بہترین سڑک بن چکی ہے۔ چین میں دستکاری کے بارے میں سب سے قدیم قومی ضوابط، "کھاؤ گونگ جی” میں دارالحکومت کی تعمیر کا ایک معیار درج ہے اور قدیم بیجنگ سٹی عین اسی ضوابط کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا ۔سو یہ محور آداب اور نظام کو اہمیت دیتا ہے، "مرکزیت” اور "ہم آہنگی” کے چینی روایتی فلسفہ کا اظہار کرتا ہے اور چینی تہذیب کی نمایاں خصوصیات کی عکاسی کرتا ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس محور پر آپ بیجنگ کے لوگوں کی زندگیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کا سلیقہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح کے زندہ ورثے بیجنگ کو مزید دلکش بنا دیتے ہیں۔
مرکزی محور پر واقع دریائے سان لی حہ 1437 میں ایک سیلابی نالا تھا، لیکن بعد میں اس نالے کو ختم کر دیا گیا ۔ اگست 2016 میں،سان لی حہ کی تزئین اور بحالی کا منصوبہ شروع کیا گیا ۔اس دریا کے کنارے ثقافتی آثار کی تزئین، عوامی مکانات کی مرمت اورگلیوں کے ماحول کی بہتری سمیت کاموں میں 8 مہینے لگے۔پھر اپریل 2017 میں سان لی حہ کو نئی جان ملی۔صاف ستھرا پانی،دریا میں تیرتی بطخیں اور راج ہنس اورروایتی بیجنگ گلیوں پر مشتمل نظارے مصروف شہر میں ایک پرسکون علاقہ تشکیل دیتے ہیں۔اور آج یہ نہ صرف آس پاس کے رہائشیوں کے لیے ایک خوبصورت باغ بن گیا ہے، بلکہ بہت سے سیاحوں کو بھی یہاں راغب کرتا ہے۔
قدیم عمارتوں کا تحفظ اور گلیوں کی بہتری نہ صرف انسانوں کے لیے بہتر ماحول فراہم کرتی ہے بلکہ جانوروں اور پودوں کے تحفظ کے لیے بھی مفید ہے۔ کامن سوئفٹ،جسے چائنیز میں "بیجنگ سوئفٹ”کہا جاتا ہے، ایک روشن مثال ہے۔ بیجنگ سوئفٹ واحد جنگلی موسمی پرندہ ہے جس کے نام میں "بیجنگ” موجود ہے۔ یہ قدیم عمارتوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ مرکزی محور پر واقع قدیم عمارت زنگ یانگ مین سینکڑوں برسوں سے بیجنگ سوئفٹ کا گھر رہا ہے۔ یہ پرندے ہر موسم بہار اور موسم گرما میں قدیم عمارتوں کی سرخ دیواروں اور نیلے رنگ کی ٹائلوں کے درمیان تیزی سے اڑتے، جو بیجنگ کی منفرد یاد اور ثقافتی علامت بن چکی ہیں۔ قدیم زنگ یانگ مین عمارت کی دیکھ بھال اور مرمت کے عمل کے دوران، لوگوں نے باضابطہ بیجنگ سوئفٹ پر سائنسی تحقیق شروع کی۔تحقیقاتی نتائج سے پتہ چلا کہ بیجنگ سوئفٹ قدیم عمارتوں کو کوئی تباہ کن نقصان نہیں پہنچاتےاور یوں بیجنگ سوئفٹ کے گھونسلوں کے تحفظ کے لیے سائنسی بنیاد رکھی گئی ہے. قدیم عمارتوں کے درمیان اڑتے ہوئے سوئفٹ، گلیوں میں کبوتر کی سیٹیاں، اور ان قدیم عمارتوں جیسے پرانے پائن اور صنوبر ،یہ سب اس عظیم محور پر زندہ ورثہ ہیں اور بیجنگ کی تاریخی تبدیلیوں کے گواہ ہیں۔
بیجنگ ہسٹوریکل ریسرچ سوسائٹی کے اعزازی صدر لی جیئن پھنگ نے کہا کہ "مرکزی محور نہ صرف تاریخ کا محور ہے بلکہ یہ زندہ اور ترقی پزیر محور بھی ہے”۔ عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شمولیت کے لیے بارہ سال تیاریاں کی گئیں، اس دوران 100 سے زیادہ ثقافتی آثار کی بحالی کے منصوبے مکمل کیے گئے ہیں ۔فاربیڈن سٹی ، ٹیمپل آف ہیون اور جِینگ شان پہاڑ سمیت دیگر شاہی محلات اور تاریخی عمارتوں کو پارکوں یا عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو تمام عوام کے لیے کھلے ہیں۔لوگ ثقافتی ورثے کے تحفظ کے فوائد کو حقیقی معنوں میں محسوس کر رہے ہیں۔
جیسا کہ فاربیڈن سٹی کی اکیڈمک کمیٹی کے سابق ڈائریکٹر شان جی شیانگ نے کہاکہ اس 7.8 کلومیٹر لمبے محور پر ” ماحولیات، معیشت، سیاست، ثقافت اور معاشرت پر مشتمل شہری ثقافتی مناظر وجود میں آئے ہیں۔” اور یہ سب عوام نے بنائے ہیں اور آخر کار عوام ہی اس سے مستفید ہونے والے بن گئے ہیں۔