واشنگٹن (نمائندہ خصوصی)وائٹ ہاؤس نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ صدر جو بائیڈن نے اکتوبر کے وسط میں جرمنی اور انگولا کا اپنا طے شدہ دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ ان میں انگولا کا دورہ بائیڈن کی جانب سے ایک سال قبل کیا گیا وعدہ ہے۔ اس سے لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ امریکہ نے افریقہ سے جو بہت سے وعدے کیے ، ان میں اب کئی خالی وعدے رہ گئے ہیں۔
بدھ کے روز ایک رپورٹ کے مطابق متعدد امریکی انتظامیہ نے امریکہ اور افریقہ کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے کی کوشش میں افریقہ کے بارے میں پالیسیز جاری کیں ۔ ان میں سے ایک ایفریکن گروتھ اینڈ آپر چیونٹی ایکٹ (اے جی او اے) ہے، جس پر مئی 2000 میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے دستخط کیے تھے۔ یہ بل افریقہ کےلیے امریکی مارکیٹ کے کھلے پن اور جی ایس پی فوائد کے دائرہ کار کو بڑھاتا تھا تاہم، امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ ترجیحی سلوک میں بہت سی سیاسی شرائط وابستہ ہوئیں اور تجارتی ترجیحی سلوک کی منسوخی کے ساتھ افریقی ممالک کو دھمکی دی جا رہی ہے۔
ایک اور منصوبہ لوبیٹو کوریڈور کو امریکی صدر نے افریقہ میں کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی ریلوے سرمایہ کاری قرار دیا۔ درحقیقت، چین اس کا سب سے بڑا شراکت دار ہے. لوبیٹو کوریڈور کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی یہ پیراگراف موجود ہے: اگر چین نے بینگویلا ریلوے کی تعمیر نو اور لوبیٹو بندرگاہ کو توسیع دینے کے لئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نہ کی ہوتی، تو لوبیٹو کوریڈور کا وجود نہ ہو۔
امریکہ کی جانب سے افریقہ کو دی جانے والی امداد کا ایک بڑا حصہ امریکہ نے خود استعمال کیا ہے۔ امریکہ کی متعلقہ تنظیموں کے ماہرین اور اسکالرز کے تحقیقی فنڈز، سفری اخراجات، افریقہ میں مختلف فاؤنڈیشنز کی سرگرمیوں کے لئے خرچ،سب اس امداد ی رقم میں شامل ہے .
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ مختلف تربیتوں، سیمیناروں، این جی اوز وغیرہ کے لیے فنڈز فراہم کرتا ہے اور یہاں تک کہ حکومت مخالف دھڑوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔ اس طرح کی امداد نہ صرف مقامی معاشرے کے استحکام اور ترقی کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ کچھ افریقی ممالک کے داخلی نظم و نسق میں بھی خلل ڈالتی ہے۔
درحقیقت افریقہ کو دی جانے والی زیادہ تر امداد امریکہ کے اپنے مفادات کے حصول کا ایک سیاسی شو ہے۔ سرمایہ کاری اور امداد کے خوش نما ملبوسات میں اصل مقصد افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا اور اپنی بالادستی اور غنڈہ گردی قائم رکھنا ہے جس سے اسے یقینی طور پر افریقی عوام کی حمایت حاصل نہیں ہو گی۔