بیجنگ (نمائندہ خصوصی) حال ہی میں کچھ مغربی میڈیا اور امریکی اور مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک بار پھر نام نہاد “چینی جاسوسی کے خطرے” کے جھوٹے بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ اگرچہ وال اسٹریٹ جرنل اور نیو یارک ٹائمز سمیت میڈیا اداروں کا دعویٰ ہے کہ ان کی رپورٹس “معروضی اور منصفانہ” ہیں ، لیکن وہ اس حوالے سےصحیح اور قابل اعتماد ثبوت فراہم نہیں کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے چین پر جاسوسی کے خطرے کا الزام لگایا ہے۔بالخصوص 2018 میں امریکی محکمہ انصاف نے “چائنا ایکشن پلان” کے تحت متعدد نام نہاد “چینی جاسوسی کے مقدمات” کو من گھڑت بنایا، جس نے چین-امریکہ تبادلوں اور تعاون کو شدید نقصان پہنچایا۔
پھر بالآخر شواہد کی کمی اور امریکی ماہرین تعلیم کی جانب سے سخت مخالفت کے باعث امریکی محکمہ انصاف کو 2022 میں اس پروگرام کو ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ طویل عرصے سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دوسرے ممالک کے راز چرانے اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے دنیا بھر میں انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کر رکھے ہیں جس سے ہر ایک واقف ہے۔ ان میں چین ، امریکہ کی جانب سے “سائبر چوری” کا سب سے بڑا ہدف اور شکار ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکی سی آئی اے نے کھلے عام سوشل میڈیا پر آن لائن رابطے کی گائیڈ لائن کا چینی ورژن جاری کیا، جو چین کے قومی مفادات کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
امریکہ کی جانب سے نام نہاد “چینی جاسوس” کے جھوٹے بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے خود امریکہ کا اپنا تشخص مجروح ہو گا اور چین غیر ملکی قوتوں کی جانب سے قومی رازوں کی چوری کے خلاف سختی سےاقدمات اٹھائےگا اور قومی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا بھرپور تحفظ کرے گا