بیجنگ (نمائندہ خصوصی)یورپی یونین کے رکن ممالک کے مابین اختلافات اور یورپ کے متعدد حلقوں سے وابستہ افراد کی سخت مخالفت کے باوجود ، یورپی کمیشن نے چین کی الیکٹرک گاڑیوں کے خلاف اینٹی سبسڈی تحقیقات کے حتمی فیصلے کا اعلان کیا۔ یورپی کمیشن کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق یورپی کمیشن 30 اکتوبر سے چین سے درآمد کی جانے والی الیکٹرک گاڑیوں پر پانچ سالہ اضافی کاؤنٹر ویلنگ ڈیوٹی عائد کرے گا ۔
چین کے خلاف یورپی یونین کی برقی گاڑیوں کی اینٹی سبسڈی تحقیقات کے بہت سے غیر معقول اور غیر موافق پہلو موجود ہیں۔ یورپی یونین کے ادارے کی جانب سے صنعت کے اطلاق کے بغیر چین کی الیکٹرک گاڑیوں کے خلاف اینٹی سبسڈی تحقیقات کرنے پر اصرار بذات خود خلاف ورزی کا عمل ہے۔ چینی الیکٹرک گاڑیوں پر عائد اضافی محصولات کا جواز مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ چینی الیکٹرک گاڑیوں کی بجلی کی کھپت سمیت متعدد اشاریوں کے معائنے کے نتائج نہ صرف یورپی یونین کے ضوابط کے مطابق ہیں بلکہ یورپی یونین کی طرف سے مقرر کردہ ضروریات سے بھی بہت کم ہیں. نام نہاد غیر منصفانہ قیمت کا جواز اس سے بھی زیادہ بے بنیاد ہے۔
چین کی نیو انرجی گاڑیوں کی صنعت کی بین الاقوامی مسابقتی برتریاں سبسڈی کی حمایت سے نہیں ،بلکہ یہ چین میں سپلائی چین کی سالمیت،اعلی صنعتی ایکو سسٹم، بھرپور مارکیٹ مسابقت اور مارکیٹ کے بڑے سائز کے ذریعے تیز تکنیکی اپ گریشن جیسے عوامل سے پیدا ہوئی ہیں ۔
یورپی کمیشن کے فیصلے پر آٹوموٹو انڈسٹری کی جرمن ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہلڈیگارڈ مولر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ چین سے درآمد کی جانے والی الیکٹرک گاڑیوں پر یورپی یونین کے محصولات عالمی آزاد تجارت کے لئے ایک قدم پیچھے جانے جیسا عمل ہے ، جس سے تجارتی تنازعات کا خطرہ بڑھ سکتا ہے اور بالآخر پوری صنعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ درحقیقت، جب سے یورپی یونین نے اینٹی سبسڈی تحقیقات کا آغاز کیا، ووکس ویگن، بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز بینز سمیت بڑے یورپی آٹومیکرز نے متفقہ طور پر اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ تحفظ پسندی صرف ترقی میں رکاوٹ بنے گی. آسٹریا کے آٹوموٹو ماہر فرٹز اندرا نے نشاندہی کی کہ ٹیرف کے ذریعے چینی الیکٹرک گاڑیوں کو ملک سے باہر رکھنے سے یورپی آٹومیکرز کو تحفظ نہیں ملے گا اور نہ ہی اس سے چینی الیکٹرک گاڑیوں کی قیمت کی برتری ختم ہوگی۔ “منصفانہ مسابقت” کے نام پر “غیر منصفانہ مسابقت” کے یورپی یونین کے تحفظ پسندانہ عمل کے بارے میں چین کا موقف پختہ اور واضح ہے: ” ہم اس سے اتفاق اور اسے قبول نہیں کرتے “۔ “اس سے اتفاق نہ کرنا” بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے چین کے مستقل رویے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں باہمی فائدہ اور جیت جیت تعاون ہی اصل جوہر ہے، اور باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے معاشی اور تجارتی تنازعات کو مناسب طریقے سے حل کرنا تمام فریقوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ چین نہ صرف چینی الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے یورپی کمیشن کی جانب سے اینٹی سبسڈی تحقیقات کے حتمی فیصلے سے متفق نہیں ہے بلکہ یورپی کمیشن کی جانب سے مذاکرات کی روح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چینی آٹومیکرز سے نجی طور پر رابطہ کرکے قیمتوں پر الگ سے بات چیت کرنے کے عمل سے بھی اتفاق نہیں کرتا، منصفانہ مسابقت کی روح کے خلاف کسی بھی عمل سے اتفاق کرنا تو دور کی بات ہے۔ “قبول نہ کرنا” کا مطلب یہ ہے کہ چین کے لئے “غیر منصفانہ” طریقوں کو خاموشی سے قبول کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ چین چینی کاروباری اداروں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے تمام ضروری اقدامات جاری رکھے گا۔ چین ڈبلیو ٹی او تنازعات کے تصفیے کے طریقہ کار کے تحت مقدمہ دائر کر چکا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ڈبلیو ٹی او تنازعات کے تصفیے کا طریقہ کار چین کے لئے اپنے حقوق کا دفاع کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ درحقیقت چین کے پاس برسوں سے اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کا بھرپور عملی تجربہ، صلاحیت اور دانشمندی موجود ہے۔
موجودہ تنازع کے حوالے سے یورپی یونین کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ چین تجارتی قوانین کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے ان علاقوں میں جہاں اس کی نمایاں واضح تکنیکی برتریاں ہیں وہاں سے پیچھے ہٹنے کا انتخاب کرے گا ۔ یورپی یونین کو ایسے میں یہ کرنا چاہئے کہ وہ یورپی صنعت اور عوام کی معقول آوازوں کو سنے، چین کے ساتھ مشاورت جاری رکھنے کے عمل میں خلوص اور لچک کا مظاہرہ کرے اور “عملیت پسندی اور توازن” کے اصول کے مطابق تعمیری انداز میں چین کے ساتھ مل کر حل تلاش کرے، تاکہ تجارتی تنازعات میں اضافے سے بچا جا سکے.
چین اور یورپی یونین کے مابین مستحکم اقتصادی اور تجارتی ترقی کے لئے باہمی فائدہ اور جیت جیت تعاون ہی واحد انتخاب ہے. سبز اور ڈیجیٹل معیشت میں تبدیلی کے عمل میں دنیا کو چینی الیکٹرک گاڑیوں کی ضرورت ہے. کثیر جہتی پر مبنی گلوبلائزیشن تمام ممالک کے لئے عالمی اقتصادی ترقی میں فعال حصہ ڈالنے کا بہترین راستہ ہے