اے آئی ٹیک سے پیشاب کا تجزیہ پھیپھڑوں کی بیماری کی تشخیص کے لیے کارگر

ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت(اے آئی) کی مدد سے پیشاب کے نمونوں کا تجزیہ کرکے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پھیپھڑوں کی دائمی بیماری میں مبتلا مریضوں میں علامات ظاہر ہونے سے سات دن قبل بیماری کے اچانک بدتر صورت اختیار کرنے کا امکان ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ ٹیکنالوجی مریضوں کے مخصوص علاج اور اسپتال میں داخلوں کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

تحقیقی میں مریضوں نے اپنے پیشاب پر روزانہ ایک سادہ سا ڈِپ اسٹک ٹیسٹ کیا (لیٹرل فلو ٹیسٹ جیسا) اور نتائج کو اپنے موبائل فون کی مدد سے ماہرین سے شیئر کیا۔

تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے 55 ایسے مریضوں کے پیشاب کے نمونوں کا جائزہ لیا جو دائمی آبسٹرکٹیو پلمونری ڈیزیز (سی اہ پی ڈی) میں مبتلا تھے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ جب علامات بدتر ہوتی ہیں تو مالیکیولز کیسے بدلتے ہیں۔

اس کے بعد سی او پی ڈی کے تقریبا 105 مریضوں نے ڈپ اسٹک ٹیسٹ کے ساتھ چھ ماہ تک ہر روز اپنے پیشاب کا تجربہ کیا اور اپنے نتائج محققین کے ساتھ شیئر کیے۔

85 کے نتائج کا تجزیہ مصنوعی اعصابی نیٹ ورک (اے این این) کا استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا ، جو ایک قسم کا الگورتھم ہے جو مصنوعی نیورونز کے نیٹ ورک کو ڈیٹا کو اس طرح پروسیس کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے جو انسانی دماغ کرتا ہے۔

سی او پی ڈی ایک ایسی اصطلاح ہے جو پھیپھڑوں کی مختلف کیفیات کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کے سبب سانس میں مشکل (جیسے کہ ایمفیسما اور دائمی برونکٹس) پیش آتی ہے۔

علامات میں سانس لینے میں دشواری، سانس لیتے وقت خرخراہٹ اور مسلسل سینے کی کھانسی شامل ہوسکتی ہے۔

بیماری اس وقت اچانک بڑھ جاتی ہے جب علامات اچانک بدتر ہوجاتے ہیں، اور یہ موسمِ سرما کے درمیان ایک عام بات ہے۔

یونیورسٹی آف لیسٹر کے پروفیسر اور تحقیق کے سربراہ کرس برائٹلنگ کا کہنا تھا ‘سی او پی ڈی کی شدت اس وقت ہوتی ہے جب سی او پی ڈی میں مبتلا کوئی شخص بہت بیمار ہو جاتا ہے اور اسے گھر یا اسپتال میں اضافی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے