تائیوان قدیم زمانے سے چین کا حصہ رہا ہے، چینی اسٹیٹ کو نسل

اقوام متحدہ (نمائندہ خصوصی) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اناسیوں   اجلاس 10 ستمبر کو شروع ہوا۔ حال ہی میں، تائیوان کے ڈی پی پی حکام اور بعض مغربی ممالک نے بار بار کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 2758 صرف عوامی جمہوریہ چین کی اقوام متحدہ میں شمولیت کے مسئلے کو حل کرتی ہے، “اس کا تائیوان سے کوئی تعلق نہیں ہے” اور “چین کو اقوام متحدہ کے نظام میں تائیوان کی نمائندگی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے”۔
چین کے  اسٹیٹ کونسل کے تائیوان امور کے دفتر کے ترجمان چن بن ہوا نے اس بارے میں  حقائق کو واضح کیا اور درست وضاحت دی۔انہوں نے کہا کہ  تاریخی حقائق پر نظر ڈالیں تو تائیوان قدیم زمانے سے چین کا حصہ رہا ہے۔ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کی مرکزی عوامی حکومت کے قیام کے بعد ، اس نے جمہوریہ چین کی حکومت کی جگہ لے کر  پورے چین کی نمائندگی کرنے والی واحد قانونی حکومت کی حیثیت حاصل کی. عوامی جمہوریہ چین کی حکومت تائیوان  سمیت پورے  چین کے  اقتدار اعلی کی  مالک  ہے ۔ تائیوان کا مسئلہ صرف چین کی خانہ جنگی کی وراثت ہے اور تائیوان پر چین کی اقتدار اعلی  کبھی تبدیل نہیں ہوئی۔

ترجمان نے مزید کہا کہ  1971 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے  چھبیسویں  اجلاس میں قرارداد نمبر  2758 منظور کرنے سے قبل  جنرل اسمبلی  نے  پہلے “دو چین  کی نمائندگی کی تجاویز” اور “ایک چین، ایک تائیوان اور تائیوان کی خود ارادیت کی تجاویز” کو بھاری ووٹوں سے مسترد  کیا تھا  جس کا مطلب یہ ہے کہ تائیوان کو چین کا حصہ تسلیم کرنے کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے تائیوان سمیت پورے چین کی نمائندگی اور نشست عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو واپس کر دی ہے ،یعنی  چین کے حصے کے طور پر تائیوان کی حیثیت کبھی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ترجمان نے مزید کہا کہ  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 2758 اقوام متحدہ کے چارٹر اور مقاصد کی عکاسی کرتی ہے اور اقوام متحدہ میں چین کی نمائندگی کے معاملے کو سیاسی، قانونی اور طریقہ کار کے لحاظ سے واضح طور پر منصفانہ اور مکمل طور پر حل کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں چین کی نمائندگی یقینا تائیوان سمیت پورے چین کی نمائندگی ہے۔

 چن بن ہوا نے نشاندہی کی کہ ڈی پی پی حکام اور بعض مغربی ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 2758 کو بدنیتی سے مسخ کرتے ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش  کرتے ہیں  ۔ انہوں نے کہا کہ یہ  بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی نظم و نسق اور قواعد کو کھلا چیلنج  ہے  اور اس کا مقصد “تائیوان کی علیحدگی ” کے لئے ماحول پیدا کرنا اور ایک چین کے اصول کو برقرار رکھنے پر بین الاقوامی برادری کے اتفاق رائے کو کمزور کرنا ہے۔چن بن ہوا نے کہا کہ  چاہے  کتنا ہی جھوٹ  بو لا جائے  اس   حقیقت کو تبدیل نہیں  کیا جا سکتا  کہ دنیا میں صرف ایک چین ہے اور تائیوان چین کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک چین  کے اصول پر عمل کرنے والی بین الاقوامی برادری کے  موقف کو  تبدیل نہیں کیا جا سکتا   اور  نہ ہی  چین  کی وحدت کے  ناگزیر اور عمومی رجحان کو روکا  جا  سکتاہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے