بیجنگ (نمائندہ خصوصی)” اس ادھڑی دنیا کو دیکھ کر کچھ لوگ اس کی سلائی کرنے والے بھی ہیں “،یہ جملہ چینی انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے کئی مناظر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے جب سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں اجنبیوں کی مہربانی،یا کمزور جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک، یا کیموتھراپی میں اپنے ہم جماعت بچے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے بچوں کی پوری کلاس کے اپنے سر منڈوانے کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں تب لوگ ہمیشہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے اس جملے کا استعمال کرتے ہیں. اسی طرح جب ہم دنیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں جنگ، بھوک، تشدد، امتیازی سلوک، غنڈہ گردی اور جنگل کا قانون دیکھنے کو ملتا ہے جو اس دنیا میں بسنے والے لوگوں کو مایوس اور یہاں تک کہ کبھی کبھی ناامید بھی کر دیتا ہے۔
دوسری جانب ایسے مہربان،حساس اور مضبوط لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے جو اس دنیا کو ہمیشہ ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ گرچہ وہ دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہوتے ، لیکن ان کا وجود ہی ایک طاقت ہے جو لوگوں کو گرمجوشی اور امید کا احساس دلاتا ہے، اور امید ہی مستقبل ہے. موجودہ بین الاقوامی معاملات پر نظر ڈالیں تو یہ جملہ بھی سب سے درست خلاصہ معلوم ہوتا ہے: دنیا کے میلے اور جھمیلے کے بس صرف دو پہلو ہیں، ایک طرف، کچھ لوگ مسلسل تضادات اور تنازعات پیدا کرتے ہیں، ناکہ بندی اور پابندیاں عائد کرتے ہیں، زنجیروں اور رابطوں کو توڑتے ہیں، اور اپنے علیحدہ گروہ اور علیحدگی باڑ کی تعمیر کرتے ہیں اور شدید جغرافیائی سیاسی مسابقت کو ہوا دیتے ہیں۔ایسی ہی ٹوٹی پھوٹی دنیا کو دیکھتے اچھے لوگ انسانی لالچ اور خود غرضی پر سخت پریشان اور یہاں تک کہ ناامید ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف، ہمیشہ کچھ ممالک اور لوگوں کے گروہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بین الاقوامی سیاست میں کثیر الجہتی اور جیت جیت تعاون پر زور دیتے ہیں، عالمی رابطے اور مشترکہ ترقی کو فروغ دیتے ہیں، اور اس کئی ٹکڑوں میں بٹی اس ادھڑی ہوئی دنیا کی سلائی کرتے ہیں. چلیں پہلے ہم پہلی قسم کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔
اس فہرست کے بارے میں سوچیں تو اس میں ایکسس بلاک ، جرمن – آسٹریا – اطالوی ٹرپل الائنس وغیرہ کے نام دکھتے ہیں جنہوں نے علاقائی بلکہ یہاں تک کہ عالمی جنگوں کو بھڑکایا اور اس کے بعد ذہن میں نیٹو ، فائیو آئیز الائنس ، جی 7 وغیرہ کے نام بھی آتے ہیں۔ جب بین الاقوامی تنظیموں کی بات آتی ہے جو جیت جیت والے تعاون اور باہمی سیکھ کے عمل کو فروغ دیتی ہیں تو سب سے پہلے جو نام لوگوں کے ذہنوں میں آتے ہیں وہ اپیک اور شنگھائی تعاون تنظیم وغیرہ کے نام ہیں، جو ایشیا بحر الکاہل کے علاقائی تعاون پر مبنی ہیں اور مشترکہ طور پر عالمی مربوط ترقی کو فروغ دیتی ہیں . پیرو کے شہر لیما میں 13 سے 15 نومبر تک منعقد ہونے والا اپیک یعنی ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون کی تنظیم کے رہنماؤں کا 2024 کا غیر رسمی اجلاس متعلقہ خطوں اور ممالک کے لیے ایک اہم موقع ہے کہ وہ مسلسل جنگوں، بحرانوں اور عالمگیریت کے سنگین چیلنجوں کے سامنے علاقائی تعاون کو مضبوط کرنے اور پائیدار اقتصادی ترقی اور جامع سماجی ترقی کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ، تاکہ ممالک کے درمیان مشترکہ مشاورت اور مشترکہ تعمیر کو فروغ دیا جا سکے اور ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں اقتصادی ترقی اور مشترکہ خوشحالی حاصل کی جا سکے۔ اس وقت لوگوں کا اتفاق رائے یہ ہے کہ اکیسویں صدی ایشیا بحرالکاہل خطے کی صدی ہے اور یہ یکجہتی اور تعاون کی صدی ہونی چاہیے ۔اس لئے یہ ہر ملک کے مفاد میں ہے کہ وہ ایشیا بحرالکاہل تعاون کو فروغ دے اور ایک خوشحال اور متحدہ ایشیا بحرالکاہل خطے کی تعمیر کرے۔ صرف اتحاد اور تعاون کرکے، تصادم اور زیرو سم گیم کی پرانی سوچ اور جنگل کے قانون سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے اور یکجہتی اور تعاون کے “دوستوں کے دائرے” کو مسلسل وسیع کیا جا سکتا ہے ، بات چیت کے ذریعے اختلافات کو ختم کیا جا سکتا ہے ، تعاون کے ساتھ مسابقت کو ختم کیا جا سکتا ہے ، اور دنیا میں یقین اور استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ سال کے اواخر میں ہونے والے ایپک لیڈرز کے غیر رسمی اجلاس میں چینی صدر شی جن پھنگ نے اپیل کی تھی کہ “ہمیں ایشیا بحرالکاہل تعاون کی اصل امنگوں کو برقرار رکھنا چاہیے، وقت کی آواز کا ذمہ دارانہ جواب دینا چاہیے، عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، پتراجایا وژن پر مکمل عمل درآمد کرنا چاہیے، ایک کھلی، متحرک، لچکدار اور پرامن ایشیا بحرالکاہل برادری کی تعمیر کرنی چاہیے اور ایشیا بحرالکاہل خطے کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے لیے مشترکہ خوشحالی حاصل کرنی چاہیے”۔ ایشیا بحرالکاہل کے علاقائی تعاون اور معاشی انضمام کے ایک اہم شراکت دار اور مضبوط محافظ کی حیثیت سے، چین نے ہمیشہ آزاد تجارت اور کثیر الجہتی کی مضبوط حمایت کی ہے، جس کا ثبوت چین کی طرف سے ” ایشیا بحر الکاہل ہم نصیب معاشرہ” کا انیشیئٹیو ہے۔ اگر کہا جائے کہ چین عالمی امن، استحکام اور مربوط ترقی کے عمل میں سب سے اہم حمایتی قوت اور رہنما ہے، تو مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ اس سے اتفاق کریں گے۔
شاید ہم اسے اس طرح واضح طور پر بیان کر سکتے ہیں کہ چین اس ادھڑی ہوئی دنیا کو سینے کے لئے زیادہ سے زیادہ اچھے لوگوں کو متحد کر رہا ہے. ہم اس بات پر بھی پختہ یقین رکھتے ہیں کہ جب نیک دلی مہربانی سے ملتی ہے تو یہ دنیا کی سب سے خوبصورت ملاقات ہوتی ہے، جو سب سے زیادہ طاقتور طاقت کو جنم دیتی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کو دیکھ کر ، مہربان دل لوگ متاثر ضرور ہوتے ہیں لیکن یہی لوگ بے خوف ہو کر ایک بہتر دنیا کے لئے آخر تک لڑنے والے بھی ہوتے ہیں۔