چین نے انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے زیرو ٹیرف ٹریٹمنٹ نافذ کر دیا

بیجنگ (نمائندہ خصوصی) چین نے 33 افریقی ممالک سمیت چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے تمام انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کی 100 فیصد درآمدی مصنوعات کے لیے زیرو ٹیرف ٹریٹمنٹ نافذ کیا ہے ، یوں چین اس اقدام کو نافذ کرنے والا دنیا کا پہلا بڑا ترقی پذیر ملک اور بڑی معیشت بن گیا ہے۔ یکطرفہ، تمام اشیا، صفر ٹیرف؛ چین کے اس اقدام نے دنیا کے کئےنمبر ون قائم کیے ہیں۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے چینی انٹرنیٹ صارفین نے حکومت کے اس اقدام کی تعریف کی، اور کچھ انٹرنیٹ صارفین نے شکایت بھی کی کہ، ” یکطرفہ کیوں ، باہمی ترجیحی سلوک کم سے کم اصول ہے!”

درحقیقت چینی حکومت کا یہ بڑا اقدام واقعی بہت مضبوط اور حیرت انگیز ہے۔ اس حوالے سے تائیوان کے کرنٹ افیئرز کی مبصر سائی ژینگ یوان نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ” ٹیرف کے حوالے سے دنیا کے ممالک سب سے بہتر یہی کر سکتے ہیں کہ ترجیحی سلوک کیا جائے۔ چین ان پسماندہ ممالک پر براہ راست صفر ٹیرف عائد کرتا ہے، جو دنیا کا پہلا اقدام ہے۔ دوسرا، یکطرفہ سلوک، بغیر کسی پیشگی شرط کے ، یہ بھی دنیا میں پہلی بار ہے۔ ان ممالک کی 100 فیصد مصنوعات شامل ہیں، جو ایک بار پھر دنیا میں پہلی دفعہ ہے! اس طرح کے اقدام سے برآمد کنندہ ممالک میں معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع بہت تیز رفتاری سے فروغ پا سکتے ہیں ، جو علم معاشیات میں تجارت کی قیادت والے ترقیاتی نظریہ کے عین مطابق ہے۔ ”

درحقیقت، یہ قابل توجہ اقدام راتوں رات حاصل نہیں کیا گیا، بلکہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کے ذریعے جنوب جنوب تعاون کو اپ گریڈ کرنے کا چین کا قدم کبھی نہیں رکا ، یہ مسلسل جاری ہے اور وسیع پا رہا ہے. 2005 میں چین نے اپنے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے افریقہ کے 25 انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کی 190 اشیاء پر صفر ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کیا ۔ اس بار چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے تمام انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کی 100 فیصد مصنوعات ٹیرف فری ہوں گی، جو چین کی طرف سے گلوبل ساؤتھ میں تجارتی تعاون کو فعال طور پر فروغ دینے، جنوب جنوب مشترکہ جدیدکاری کو فروغ دینے اور گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے درمیان نئی اقتصادی شراکت داری کی مستحکم ترقی کی قیادت کرنے کا ایک بڑا اقدام ہے۔ یہاں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ چین کی جانب سے زیرو ٹیرف پالیسی کا نفاذ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ مختلف ممالک پر بھاری اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کر رہے ہیں، اور امریکہ کے اس سیاسی کھیل پر دنیا بھر کے معاشی ماہرین اور رائے عامہ کی جانب سے تبصرے ہو رہے ہیں۔

کیا چین کا انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے زیرو ٹیرف اقدام صرف ان ممالک کو زیادہ سے زیادہ گندم، کافی اور دیگر خام مال برآمد کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ ان ممالک کو تھوڑا سا معاشی فائدہ ہو؟ یقینی طور پر نہیں! چین کے اس اقدام کی گہری اہمیت بڑے پیمانے پر تجارت کے ذریعے گلوبل ساؤتھ کی معیشت اور صنعتی تعاون کو اپ گریڈ کرنے کو فروغ دینا اور گلوبل ساؤتھ کی جدید کاری کے مشترکہ راستے کی رہنمائی کرنا ہے۔ آج کے عالمی پائیدار ترقی کے مخمصے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت کم ممالک جدیدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کے تحت، اگر گلوبل ساؤتھ کے ممالک، جو دنیا کی کل آبادی کی بڑی اکثریت پر مشتمل ہیں، مشترکہ طور پر جدید کاری کر سکتے ہیں، تو دنیا کی جدیدکاری کی سطح بہت بہتر ہو جائے گی، اور اس سے دنیا میں پائیدار ترقی کو مسلسل قوت محرکہ میسر ہوگی. اس کے برعکس ، گلوبل ساؤتھ کی جدیدکاری کے بغیر ، دنیا کی کوئی جدیدکاری نہیں ہوگی اور دنیا کی متوازن اور مستحکم ترقی کے عمل میں طویل مدتی غیر یقینی صورتحال جاری رہےگی۔ تجارت مختلف تہذیبوں کے مابین وسیع تبادلوں کو فروغ دینے اور مختلف خطوں میں تکنیکی اور ادارہ جاتی ترقی کو بہتر بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ موجودہ بین الاقوامی تجارتی نظام میں جنوب کے ممالک کی کمزور پوزیشن کو ختم کرنے کے لئے کلیدی بات یہ ہے کہ جنوب جنوب تعاون میں تجارت پر مبنی جامع ترقیاتی نظام قائم کیا جائے، تاکہ جنوب کے ممالک تعاون میں حقیقی سماجی اور معاشی فوائد حاصل کر سکیں. لہذا، مارکیٹ کو یکطرفہ طور پر وسعت دینے کا چین کا اقدام انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کے لئے بین الاقوامی اقتصادی تعاون کا اچھا ماحول پیدا کرنے کے لئے ایک اہم اقدام ہے، اور یہ ان ممالک کی مصنوعات کے معیار کو بہتر کرنے، صنعتی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی مسابقت کو بڑھانے کے لئے حوصلہ افزائی بھی کرے گا. چین کی جامع زیرو ٹیرف پالیسی کا نفاذ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تمام ممالک منصفانہ اور زیادہ کھلے تجارتی ماحول میں مشترکہ ترقی و خوشحالی کی جستجو کرنے اور عالمی چیلنجوں سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے قابل ہوں گے۔ یہ تبدیلی عالمی معاشی نظام کے ارتقا کو زیادہ منصفانہ بنائے گی اور جامع سمت میں فروغ دے گی ، اور تمام ممالک ، خاص طور پر انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کو گلوبلائزیشن کے ثمرات کو بانٹنے کے لئے نئے مواقع فراہم کرے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے